Friday, 16 November 2012

ملالہ یوسف زئی کو قومی وبین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں قوم کی بہادر بیٹی کےطور پر پیش کیا جا رہا ہے۔اسکولوں ، کالجوں اور گھروں میں اس کی جلد صحتیابی کے لیے دُعائیں مانگی جا رہی ہیں۔سوشل میڈیا بھی اس سلسلے میں کسی سے پیچھے نہیں ۔بہت سوں نے ملالہ کو خراج ِ تحسین پیشکرنے کے لیے فیس بک پر اپنیپروفائل پکچر کی جگہ ملالہ کی تصویر ڈسپلے کر رکھی ہے۔شاعروں نے نظمیں لکھی ہیں۔ادبیوں نے مذمتی قراردادیں اپنے اسٹیٹس پر آویزاں کر رکھیہیں۔بہت سوں کا خیال ہے کہ ملالہ کو باقاعدہ ”قومکی بیٹی“ کے خطاب سے نوازا جائے۔اسے امن کا نوبل انعام دیے جانے کا بھی مطالبہ کیا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ملالہ پر حملے کو ایک الگ زاویے سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ملالہ کی ”گل مکئی ڈائری “ کا معمہ حلہو گیا ۔یہ ڈائری ایک غیرملکی ادارے کا مقامی نامہ نگار لکھتا رہا ہے۔چوتھی جماعت میں پڑھنےوالی ایک بچی اوباما کے بارے میں کتنا جان سکتی ہے کہ اسے اپنا آئیڈیل قرار دے۔ایک کالم نویس نے ”گل لالہ بمقابلہ ملالہ“ کے عنوان سے لکھا ہے کہ”ملالہ یوسف زئی پر حملے پر تلملانے اور آنسو بہانے والے ڈرامے بازو، کیا تمہیں وزیرستان میں ڈرون اور جیٹ حملوں میں شہید ہونے والی معصوم بچیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ایک صاحب نے ملالہ کی ڈائری سے یہ جملہ بھی نقل کیا ہے ” برقعہ پتھر کے دور کی نشانی ہے “ واللہ علم باالصواب۔ جتنے منہ ، اتنی باتیں۔کوئی کہتا ہے کہ اگر ملالہ پر یہی حملہ کراچیمیں ہوا ہوتا تو کیا اسے اتنی زیادہ کوریج ملتی ؟عافیہ صدیقی بھی تو قومکی بیٹی ہے ۔ اس پر ہونے والے امریکی مظالم پر خاموشی کیوں ؟ ڈرون حملوں اور لال مسجد میں شہید ہونے والی معصوم بچیوں کا ماتم کون کرے گا؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ملالہ یوسف زئی پر حملے کی آڑ میں کوئی اور کھیلکھیلا جا رہا ہو ؟

No comments:

Post a Comment